جب ابو کی پنشن میں گزر بسر مشکل ہو گئی تو بھائی احسن نے ڈرائیونگ سیکھ لی اور ہمارے پڑوسی کی سوزوکی چلانے لگا۔ وہ روزانہ گاؤں سے سواریاں اٹھاتا اور لاری اڈے چھوڑ آتا ۔ اس طرح ہماری گزر اچھی ہو جاتی تھی۔ احسن نے میٹرک تک پڑھا، آگے حالات نے اجازت نہ دی۔ اسے مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا مگر ابو بوڑھے ہو چکے تھے اور ہم خدا کے فضل سے چھ بہنیں بیاہی جا چکی تھیں ، بس ایک بہن رہتی تھی۔ اب اس کے ہاتھ پیلے کرنے تھے۔ احسن ہمارا سب سے چھوٹا اور اکلوتا بھائی تھا۔
ایک دن وہ سواریاں لے کر گاؤں آنے لگا تو چاچا کو دیکھا۔ وہ شہر سے آئے تھے۔ بھیا نے سوزوکی روکی اور انہیں ساتھ بٹھا لیا۔ گھر پہنچ کر چاچا نے بڑی تعریف کی کہ احسن بہت اچھی گاڑی چلاتا ہے۔ چند روز ہمارے گھر قیام کے بعد جب وہ جانے لگے تو احسن کو بھی ساتھ لے لیا۔ شہر آکر چچا نے بھیا کی نوکری کی کوشش کی۔ بالآخر احسن کو ملازمت مل گئی اور وہ نرسنگ ٹریننگ سینٹر کی بس چلانے لگا۔ وہ ہر ماہ تنخواہ میں سے اپنا خرچہ نکال کر باقی پیسے گھر بھیج دیتا۔ یوں ہمارے مالی حالات کو سہارا ملا۔ اس ملازمت کی وجہ سے اب بھیا کو شہر ہی میں رہنا تھا۔ گاؤں کا سیدھا سادا لڑ کا جب شہر میں گیا تو بہت جلد ہوشیار ہو گیا۔ اس کی دوستی ایک لڑکے نیاز احمد سے ہو گئی، جو کالج کی بس چلاتا تھا اور سینٹر کے کوارٹر میں رہتا تھا۔ اس کوارٹر کا کرایہ چار سو روپے تھا، تاہم وہ یہ کرایہ بھی بمشکل ادا کر پاتا تھا۔ اس نے احسن سے کہا کہ تم میرے ساتھ رہائش اختیار کر لو تو اس طرح میرا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا اور تم کو بھی آدھے کرایے پر رہائش میسر آجائے گی۔ چچا بھی ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ وہ پہلے ایک افسر کی جیپ چلاتے تھے۔ احسن نے سوچا، بجائے چاچا پر بوجھ بننے کے کیوں نہ دوست کی پیش کش قبول کرلوں تبھی یہ دونوں ایک ہی کوارٹر میں رہنے لگے۔ بھیا کی یہ عادت تھی کہ بس چلاتے وقت اترنے اور چڑھنے والوں پر نظر رکھتا تھا۔ کچھ دونوں سے بس میں ایک نیا چہرہ دیکھ رہا تھا، شیشے میں جس کی آنکھیں کئی بار بھائی کی آنکھوں سے ٹکرائی تھیں۔ یہ ایک فیشن ایبل لڑکی تھی۔ ہلکے پھلکے فیشن سے اس کا حسن دوبالا اور شخصیت نکھری نکھری لگتی تھی تبھی وہ احسن کو اچھی لگنے لگی۔ دل میں اسے ایک حسرت سی ہوتی کہ کاش اس مہ جبیں سے بات ہو سکتی۔ جلد ہی یہ آرزو پوری ہو گئی۔ ہوا یوں کہ ایک روز جب وہ لڑکی بس میں سوار ہوئی تو ٹکٹ چیکر کی اس سے تکرار ہوگئی۔ اتفاق سے لڑکی کی سیٹ ڈرائیور کے عقب میں تھی۔ بھائی نے مڑ کر دیکھا اور چیکر سے کہا۔ عاصم بھائی! کیا بات ہے کیوں الجھ رہے ہو ؟ احسن بھائی ، اس لڑکی نے ٹکٹ نہیں لیا اور بس میں سفر کر رہی ہے ۔ رقم مجھ سے لے لینا، اس کے ساتھ تکرار مت کرو۔ ممکن ہے رقم گھر بھول آئی ہو۔ اس احسان کے بعد وہ لڑکی میرے بھائی کی بے حد ممنون ہوئی اور منزل پر پہنچ کر بس سے اترتے وقت اس نے رک کر شکر یہ ادا کیا۔
احسن یہی تو چاہتا تھا کہ کسی طور لڑ کی سے بات ہو۔ اللہ نے اس کی یہ خواہش پوری کر دی۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ پھر سے ٹکٹ چیک کرتے ہوئے چیکر نے شکایت کی۔ احسن بھائی آج بھی یہ لڑکی ٹکٹ نہیں لے رہی ہے۔ اچھا یار معمولی بات ہے ، تم جھگڑا مت کرو۔ ٹکٹ کی رقم مجھ سے لے لینا۔ یہ بات بھائی نے آہستہ سے کہی تا کہ دوسرے مسافر نہ سن لیں۔ اگلے دن بس سے اترتے وقت اس لڑکی نے ایک رقعہ میرے بھائی کے ہاتھ میں دیا اور اتر گئی ۔ احسن نے حیرت سے اس رقعے کو کھول کر پڑھا، لکھا تھا۔ آپ کا شکریہ ، دوبارہ مدد کر کے مجھے بھری بس میں بے عزتی سے بچالیا۔ ان شاء اللہ ! کبھی نہ کبھی آپ کو رقم لوٹا دوں گی۔ فی الحال مالی حالات ابتر ہیں، کہتے ہوئے حجاب آرہا ہے لیکن یقین جانئے، بہت مشکل میں ہوں۔ اگر میری مدد کر سکیں تو احسان ہوگا۔ اگلے روز جب وہ بس میں سوار ہوئی تو احسن کو یوں دیکھا جیسے جواب چاہتی ہو تبھی بھائی نے اس کو نیاز کے کوارٹر کا پتا دے دیا۔ وہ شام کو خودہی وہاں آگئی ۔ اسے دیکھ کر نیاز کوارٹر سے چلا گیا تا کہ یہ دونوں آسانی سے بات کر سکیں۔ لڑکی نے بھیا کو اپنی داستان سنائی اور مسائل بتا کر کہا۔ میں اس شہر میں ٹریننگ کے لئے آئی ہوں۔ میرے لیے پردیس ہے اور یہاں میرا کوئی نہیں ہے۔ ایک سہیلی کے پاس رہتی ہوں مگر وہ میری مالی مدد نہیں کر سکتی ۔ گھر سے کبھی رقم آجاتی ہے اور کبھی نہیں، تب بہت مشکل ہوتی ہے۔ نجانے کیوں آپ کو دیکھ کر ایسا لگا کہ آپ میری مدد کر سکتے ہیں اور میں مدعا بیان کروں گی تو انکار نہ کریں گے۔ اس کی ماں گاؤں میں رہتی تھی اور کھجور کے پتوں سے ہاتھ کے پنکھے، چٹائیاں اور چنگیریں بناتی تھی۔ وہ کبھی رقم جوڑ پاتی اور کبھی نہیں، اب بیماری کے سبب اسپتال میں داخل ہونا پڑا ۔ رقم کوکیا بجھواتی سردست اس کو علاج کے لئے رقم درکارتھی۔ اس لڑکی کا نام صبور تھا۔ وہ کچھ رقم بھی لائی تھی ، جو اس نے ماں کو بھجوائی تھی مگریہ ناکافی تھی۔ بھائی نے اس کو تسلی دی اور اپنی طرف سے اور روپے ملا کر اس کی ماں کو یہ رقم منی آرڈر کر دی۔ وہ بہت ممنون ہوئی۔ اس کے بعد ان کی جان پہچان ہو گئی ۔ اب جب وہ پریشان ہوتی یا کوئی مسلہ ہوتا، وہ نیاز احمد کے کوارٹر میں احسن سے ملنے آجاتی اور اپنی مشکل بیان کر دیتی تھی۔ احسن بہت مہمان نواز تھا، وہ اس کی بھی مہمان نوازی کرتا۔ کبھی اس کا دوست بھی موجود ہوتا ۔ ان کی کوئی بات اس سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ اگر بھائی کچھ دنوں کے لئے گاؤں آجاتا اور پیچھے ملنے صبور آتی تو نیاز اس کی مہمان نوازی کرتا کہ اس کے دوست کی مہمان تھی۔
جب احسن گاؤں سے لوٹ کر شہر جاتا اس کا دوست بتا دیتا کہ صبور آئی تھی۔ بھائی کو بھی نیاز اور صبور پر کبھی بھی شبہ نہیں ہوا۔ اسی دوران چھوٹی بہن کی شادی قریب آگئی اور امی نے احسن کو بلوا لیا۔ یہاں آکر شادی کے سارے معاملات اس نے ہی دیکھنے تھے کہ والد بوڑھے ہو چکے تھے۔ ان میں اب اتنی طاقت نہ رہی تھی کہ ذمہ داریاں اٹھا سکتے ۔ اللہ کا فضل ہوا اور بہن کی شادی بہ خیر و خوشی انجام پاگئی ۔ اب احسن کی شادی کی باری کی تھی۔ بیٹیاں سب اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں ۔ امی ابو چاہتے تھے کہ بیٹے کی دلہن آئے ، اس کا گھر بھی بس جائے۔ وہ احسن پر زور دے رہے تھے کہ تم اپنی پھوپی کی بیٹی سکینہ کے بارے سوچو۔ وہ اچھی لڑکی ہے، میٹرک پاس ہے، سلیقہ مند اور گھریلو کاموں میں طاق ہے۔ اپنی بچی ہے تمہارا گھر بسائے گی اور ہماری بھی بڑھاپے میں خدمت کرے گی۔ میں سوچ کر جواب دوں گا ۔ یہ کہہ کر احسن شہر چلا گیا۔ احسن نے صبور سے شادی کا وعدہ کیا ہوا تھا، لہذا شہر آکر اس سے بات کرنے کا سوچا۔ وہ کوارٹر آئی مگر بھائی کو دیکھ کر خوش نہ ہوئی۔ اس کے لہجے میں پہلے جیسی چاہت اور گرم جوشی نہ تھی بلکہ سرد مہری سی تھی، جس کو میرے بھائی نے محسوس کیا۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھی ، پھر چلی گئی۔ یہ تک نہ پوچھا کہ اتنے دن گاؤں میں کیوں رہے؟ کس وجہ سے گئے تھے اور کیوں زیادہ چھٹیاں لیں۔ تمہارے گھر والے تو ٹھیک ہیں۔ یعنی اس نے رسمی سوالات بھی نہ کئے بلکہ اس طرح بیٹھی رہی جیسے اس کا دل احسن کے ساتھ نہیں لگ رہا ہے۔ اس کے رویئے سے بھیا کے دل کو ٹھیس آئی مگر وہ کچھ نہ بولے کہ ممکن ہے کہ کوئی پریشانی ہو۔ پہلے اگر کوئی پریشانی ہوتی تھی تو وہ میرے بھائی کوضرور بتائی تھی مگراب گم صم تھی۔ دوسری بار بھی احسن نے صبور میں وہ محبت نہ دیکھ جو تین ہفتے پہلے تھی۔ اس کی غیر حاضری سے گویا، پندرہ دن میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ اس کی دوستی نیاز سے ہوئی تھی۔ اب وہ اسے چاہنے لگی تھی اور نیاز بھی اس میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ بھائی نے دوست پر اعتماد کیا، جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور لڑکی کو اپنی جانب کر لیا۔ ایک دن صبور بس میں نظر نہ آئی اور جب احسن کوارٹر پہنچا تو نیاز بھی نہیں تھا ۔ وہ انتظار کرتا رہا کہ شاید دیگر دوستوں کے ساتھ گھومنے گیا ہو لیکن یہ انتظار ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا۔ تب احسن کو شک ہونے لگا کہ اتنی لمبی غیر حاضری اور اس کو اطلاع تک نہیں کی۔ کیا وجہ ہو گی ؟ ادھر صبور بھی نظر نہ آئی اور نہ ملنے ہی آئی۔ اب اس کے دل میں ان دونوں کے بارے اور طرح کے خیالات آنے لگے، پھر ایک روز یہ شک اس روز یقین میں بدل گیا۔ جب صبح ہی صبح مارکیٹ میں کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہوئے اس کی نظر ایک گاڑی پر پڑی جس میں نیاز اور صبور بیھٹے ہوے تھے۔ فورا اس کے دل پر اس گمان نے شب خون مارا کہ کہیں دونوں نے مل کر اسے دھوکا تو نہیں دیا ؟ اس نے نیاز کے ایک دوست سے پتا کیا، جس نے بتایا کہ اس نے صبور نامی لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ احسن کا سر گھومنے لگا، وہ نوکری چھوڑ ، سامان اٹھا کر گھر آگیا۔
کچھ دن میرا بھائی بہت بجھا بجھا اور اداس رہا۔ امی ابو نے بہت پوچھا۔ ان کو کچھ نہ بتایا لیکن مجھ سے اس کی بہت بنتی تھی، لہذا مجھ سے دل کی بات کر کے من کا بوجھ ہلکا کر لیا۔ تمام آب بیتی سنادی اور کہا کہ امی ابو کو نہیں بتاتا، ورنہ ان کو صدمہ ہوگا۔ میں نے شہر کی نوکری چھوڑ دی ہے۔ شہر میں ایک دوست بن گیا تھا۔ اس کا بڑا بھائی دبئی میں رہتا ہے اور ویزوں کا کام کرتا ہے، مگر اس کو رقم دینی ہوگی ۔ سوچ رہا ہوں، کہیں سے رقم کا انتظام ہو جائے تو دبئی چلا جاؤں۔ اپنے بھائی کو اس قدر دکھی اور پریشان دیکھ کر میرا دل بھی ماندہ ہو گیا۔ میں نے اسے تسلی دی اور اپنے ہاتھ کی چوڑیاں اتار کر اس کو دیں۔ کہا کہ ان کو فروخت کر کے دبئی جانے کا انتظام کر لو۔ زیور کا کیا ہے پھر سے بن جائے گا۔ احسن چوڑیاں نہیں لے رہا تھا تا ہم میں نے اصرار کر کے اس کو دے دیں۔ اس طرح وہ دبئی چلا گیا۔ اللہ تعالی نے وہاں اس کا رزق لکھا تھا۔ پہلے چھوٹی موٹی نوکری ملی پھر اچھی ملازمت مل گئی محنتی اور دیانت دار ہونے کی وجہ سے سیٹھ قدر کرتا تھا۔ اس نے بیٹا بنا کر رکھا ۔ اس طرح اچھی تنخواہ ملنے سے ہمارے گھر میں خوشحالی آئی اور مالی حالات سدھرنے لگے۔ نیا فرنیچر ٹی وی، واشنگ مشین، فریج، غرض ضرورت کی سبھی اشیاء اور سہولتیں میسر آئیں۔ چھ برس کی محنت و مشقت کے بعد والدین نے بالآخر اس کو شادی کے لئے منا لیا اور پھوپھو کی بیٹی سے اس کی شادی کر دی ۔ شادی کے بعد بھائی کی اپنی بیوی سے بن گئی اور دونوں خوش رہنے لگے۔ احسن نے تین سال بعد بھابھی کو دبئی بلوا لیا۔ اس وقت وہ دو بچوں کی ماں تھیں ، باقی دو ان کے بچے دبئی میں ہوئے۔ اب وہ چار بچوں کے والدین تھے اور خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب موقع بنتا، آکر ہم سے مل جاتے ۔ امی ابو میرے ساتھ رہتے تھے۔ میں اپنے چاچا کی بہو بنی تھی اور میرے شوہر کو انہوں نے گھر داماد بنالیا تھا کیونکہ چچا کے ماشا اللہ تین بیٹے اور بھی تھے۔ امی ابو پیرانہ سالی میں اپنے بیٹے سے جدائی کاٹ رہے تھے، لہذا چاچی اور میرے شوہر نے بھی یہی بہتر جانا کہ میں اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ رہوں۔
میری دوسری بہنیں، دور کے رشتہ داروں میں اور تین غیروں میں بیاہی گئی تھیں، لہذا میرے ساس اور سسر کا سب سے قریبی رشتہ بنتا تھا۔ یوں اس مشکل وقت میں اپنے میرے والدین کے کام آئے۔ بھائی بھابھی کو دبئی رہتے چھ برس گزر چکے تھے۔ وہ صرف چھٹیوں میں ہی چند دنوں کے لئے آتے تھے کیونکہ روزی کا معاملہ تھا۔ وہ وہاں بہت اچھا کام کر رہے تھے جبکہ اپنے وطن میں گریجوئیٹس بچارے بے روزگار پھرتے تھے۔ احسن بھائی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ بھی صبور اچانک مل جائے گی۔ وہ تو ایسے غمزدہ ہو کر شہر سے ملازمت چھوڑ کر نکل گئے کہ دوبارہ پلٹ کر بھی وہاں نہیں گیا۔ نہ ہی کبھی نیاز کا پتا کیا۔ ایک روز اپنی کمپنی کے کام سے انہیں، دوائیوں کی ایک بڑی کمپنی جانا ہوا۔ شام کے تقریباً چار بجے تھے، جب وہ منیجر کے دفتر سے نکلا۔ کمپنی کے سامنے والے بس اسٹاپ پر اس نے صبور کو بس کے انتظار میں سلگتے پایا۔ وہ حسن کی دیوی مرجھا چکی تھی، چہرہ بے رونق تھا، کپڑے بوسیدہ اور میلے تھے۔ وقت سے پہلے بڑھاپے کے آثار نمایاں ہو گئے تھے۔ احسن نے اپنی کار اس کے قریب جا کر روک لی۔ اس کو دیکھ کر وہ چونک پڑی۔ بھائی نے مجھے بتایا تھا۔ رابی ! میں اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ کیا یہ وہی صبور ہے، جس نے مجھ سے پیار کی قسمیں کھائی تھیں اور جیون بھر ساتھ نباہنے کا وعدہ کیا تھا۔ جو فیشن والے شوخ رنگ کپڑے پہنتی تھی اور غربت کے باوجود لڑکیوں میں نمایاں نظر آتی تھی۔ جو اتنی خوش شکل تھی کہ چہرے پر نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ اس کو اچانک دیکھ کر بھول ہی گیا کہ وہ کسی اور کی ہو چکی ہے۔ فوراً اس کی طرف گیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ… وہ اسی کمپنی میں دوائیں پیک کرنے کا کام کرتی ہے۔ نیاز نے شادی کے ایک سال بعد ہی اس کو چھوڑ دیا تھا۔ ماں فوت ہوگئی اور نرسنگ ٹریننگ نیاز کی وجہ سے مکمل نہ کر سکی۔ دردر کی ٹھوکریں کھائیں، کسی رشتہ دار نے پناہ نہ دی۔ آخر ایک دور کے رشتہ دار نے جو عرصے سے دبئی میں قیام پذیر تھا، ترس کھا کر دبئی میں ملازمت کروادی۔ ویزہ بھی کمپنی کی طرف سے ملا۔ یہ بتا کر وہ رونے گی۔ مجھے معاف کرو دو احسن! میں نے تمہیں دھوکا دیا۔ برے آدمی کو اچھا سمجھا اور اچھے کی قدر نہ کی۔ مجھے اس بے وفائی کی سزا ملی ہے۔ مجھے معاف کردو۔ کوئی بات نہیں۔ یہ سب قسمت کے کھیل ہوتے ہیں۔ تم میری قسمت میں ہی نہ تھیں ۔ احسن بھائی نے اس کو جواب دیا ۔ اس پر وہ منت کرنے لگی کہ احسن میں بہت تھک گئی ہوں۔ اب نوکری نہیں کر سکتی۔ میرا کوئی نہیں ہے، تم مجھے اپنا لو۔ میں بے سہارا ہو گئی ہوں۔ ساتھ کام کرنے والی لڑکی کے ساتھ آدھے کرایے پر رہ رہی ہوں ۔ نجانے کب یہ رہائش خالی کرنا پڑ جائے۔ میرا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔ بھائی نے مجھے بتایا کہ اس وقت صبور کی حالت پر دل بہت کڑھا تھا، مگر میں اب حقیقت کی دنیا کا باسی ہو چکا تھا، جہاں دل کے معاملات سے زیادہ دوسرے حقائق اہم ہوتے ہیں، سو اسے کہا کہ صبور ! میں ضرور ایسا کر لیتا، میرے دل میں اب بھی تمہارے لئے جگہ ہے۔ اس حال میں ہرگز تم کو بے آسرا نہ چھوڑتا مگر کیا کروں، بہت مجبور ہوں۔ میری شادی ہو چکی ہے۔ اب میں چار بچوں کا باپ ہوں۔ میں اپنی بیوی کو کیسے دھوکا دوں۔ وہ بے لوث محبت کرنے والی، با وفا عورت ہے اور پھوپھی زاد بھی۔
یہ الفاظ بھائی اس سے کہنا نہ چاہتا تھا مگر بڑی مشکل سے کہنے پڑے کیونکہ انکار نہ کرنا، جھوٹی آس دلانا کسی کو دھوکے میں رکھنا ہوتا ہے۔ شاید صبور کی التجا پر وہ اس سے شادی کر بھی لیتا مگر وہ بیوی کی خوشیوں کو برباد کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ احسن کا کہنا تھا کہ یہ میری زندگی کا بہت ہی کٹھن لمحہ تھا۔ ایک ایسا موڑ کہ نہ پیچھے ماضی میں پلٹ سکتا تھا اور نہ قدم آگے بڑھتے تھے۔ وہ مایوس ہو کر کار سے اتر گئی اور تھکے تھکے قدموں سے دور ہوتی چلی گئی۔ وہ اسے دور تک جاتے دیکھتا رہا، یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اب بھی جب اس لڑکی کی حالت زار اور مایوسی کا خیال آتا ہے تو دل ڈوب جاتا ہے۔ اور یہ سوچ تنگ کرنے لگتی ہے کہ کاش ۔ میں اس لٹی ہوئی عورت کو سہارا دے سکتا۔