سری ناتھ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا تھا اور اسے اپنے اوپر اس قدر اعتماد اور خوش فہمی تھی کہ اسے کوئی بھی بے وقوف بنا کر فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسے اتنا گھمنڈ تھا کہ اس کا کوئی بھی منصوبہ ناکام نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اسے یقین تھا کہ وہ عام شہریوں کی نسبت ذہین اور باصلاحیت ہے۔
وہ یہ بات بھی بخوبی جانتا تھا کہ پولیس والے اس وقت تک ملزم پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے جب تک کہ جرم ثابت نہ ہو جائے۔ وہ اس سے کارروائی کرتے ہیں جب ملزم کے خلاف انہیں شک اور یقین نہ ہو جائے اور پھر اس کے اور ٹھوس ثبوت کے درمیان کوئی فاصلہ نظر نہ آئے۔ وہ جو بھی منصوبہ بناتا تھا تو اس کی ہر ممکن یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہر لحاظ سے مکمل، بے عیب اور خامیوں سے پاک ہو۔ جھول ہونے سے ساری محنت اور منصوبہ خاک میں مل جانے کا اندیشہ ہو ہے۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ اپنی ذہانت سے پولیس کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ وہ اپنے اس منصوبے پر عمل کرنے کیلئے پولیس ہیڈ کوارٹر کی عمارت میں بڑے اعتماد کے ساتھ داخل ہو رہا تھا۔ وہ ہر قسم کی صور تحال کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار تھا اور اس کے چہرے
سے گھبراہٹ اور پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔ ہر دیکھنے والا بآسانی سمجھ اور جان لیتا کہ یہ شخص کس قدر خوف وہر اس سے دوچار ہے۔ یہ تاثرات اس نے خود ہی اپنے اوپر طاری کر لئے تھے۔
جب وہ ہال میں گھسا تو اس نے دیکھا کہ شکایات درج کرانے کے کائونٹر پر دو لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ ایک قطار تو لڑکیوں وعورتوں کی تھی جس میں ہر عمر کی لڑکیاں اور عورتیں تھیں۔ وہ سبھی متفکر اور پریشان سی دکھائی دیتی تھیں۔ مردوں کی قطار میں شامل نوجوان اور تیس چالیس برس کی عمر کے مردوں کے علاوہ عمر رسیدہ بھی تھے۔ چونکہ جرائم کی بھر مار تھی اس لئے لوگ روز متاثر ہوتے تھے۔ لڑکیوں اور عورتوں کا اغوا، ان کے ساتھ زیادتی اور جہیز نہ لانے پر دیور، ساس، نندوں کا انہیں جھلسادینا، کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا کہ شہر میں نت نئے جرائم اور طرح طرح کے سنگین واقعات جنم نہ لیتے ہوں۔
تھانوں میں چونکہ اس وقت تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں آتی جب تک عملے یا ایس ایچ او کی مٹھی گرم نہ کر دی جائے۔ اس لئے لوگ مجبور اور پریشان ہو کر پولیس ہیڈ کوارٹر کا رخ کرتے تھے۔ ہال میں نہ صرف باور دی وومن پولیس بلکہ مرد بھی کھڑے ہوئے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ جیسے وہ سب کی نظروں کا مرکز بن گیا ہے اور سبھی اسے تعجب خیز نظروں سے دیکھے جارہے ہیں۔ وہ انہیں اپنی طرف متوجہ پا کر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا تھا۔ اس کیلئے یہ بڑی دلچسپ بات تھی کہ وہ پولیس والوں کو ان کے ہیڈ کوارٹر میں بے و قوف بنانے آیا تھا۔ آج تک کسی نے انہیں اس طرح بے وقوف نہیں بنایا ہو گا۔ وہ بال میں گھسنے کے بعد ایک سپاہی کی طرف بڑھا جو موٹا، بھدا تھا اور اس کی توند نکلی ہوئی تھی۔ چونکہ یہ لوگ راشی ہوتے تھے اور حرام کی کھاتے تھے ،
اس لئے ان کے بدن پر سیروں چربی چڑھی ہوتی تھی۔ سر ! پلیز آپ میری کچھ مدد فرمائیں۔فرمائیں … میں آپ کی کیا سیوا کر سکتا ہوں ؟ وہ بیٹری پی رہا تھا۔
لمبا ساکش لے کر بولا۔ سپاہی کے الفاظ اور لہجے میں مطابقت نہیں تھی۔ وہ جھنجھلایا ہوا اور بیزار سالگ رہا تھا
جیسے اسے کوئی شکار ہاتھ نہ لگا ہو۔ میری کار چوری ہو گئی ہے۔ سری ناتھ نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ میں اس کی رپورٹ درج کرانا چاہتا ہوں۔ اس طرف جائو۔ سپاہی نے ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہا ہو ادھر جا کر مرو، میر اوقت اور دماغ خراب کیوں کر رہے ہو ؟ سری ناتھ نے اس سمت دیکھا جہاں سپاہی نے اشارہ کیا تھا۔ وہاں ایک کائونٹر بنا ہوا تھا اور ایک تختی آویزاں تھی جس پر لکھا ہوا تھا
مسروقہ کاروں کی رپورٹ یہاں درج کرائیں۔ اس نے شکریہ ادا کرنے کیلئے گردن گھمائی لیکن وہ سپاہی تیز تیز قدموں سے نکل رہا تھا ایک موٹی سی عورت کے ساتھ ! وہ اس کا شکار تھا شاید … وہ عورت اسے شاید کینٹین میں لے جارہی تھی تاکہ اس کی سیوا کر کے معاملہ طے کرے۔ سری ناتھ نے کندھے اچکائے اور اس کائونٹر کی طرف بڑھا۔ اس کائونٹر پر ایک عورت بیٹھی تھی جس کی عمر تیس برس کی ہو گی۔ وہ گہری رنگت کی مالک تھی لیکن اس کی کالی رنگت میں بڑی جاذبیت تھی اور اس کا جسم بھی چھریرا اور متناسب تھا۔
وہ سفید ساڑی اور بلائوز میں ملبوس تھی۔ اس کے سامنے ایک مرد کھڑار پورٹ درج کرا رہا تھا۔ کائونٹر پر ایک اور شخص تھا، وہ نو جوان سارجنٹ تھا۔ وہ اپنے چہرے سے کافی خوش نظر آیا۔ سری ناتھ کی بات سن کر اس نے اثبات میں گردن ہلائی اور ایک فارم نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ سری ناتھ نے فارم پر کر کے سارجنٹ کی طرف بڑھا دیا،
جو اس پر نظر ڈال کر پڑھتے پڑھتے اک دم چونک پڑا۔ گاڑی کا کیا نمبر لکھا ہے آپ نے .. نو ، سات ، پانچ ، آٹھ اور چار …؟ جی ہاں یہی نمبر ہے۔ پلیز از حمت نہ ہو تو خود چیک کر لیں۔ سری ناتھ نے اطمینان سے کہا اور اپنا ڈرائیونگ لائسنس جیب سے نکال کر سارجنٹ کی طرف بڑھا دیا۔ سارجنٹ اس سے لائسنس لے کر غور سے دیکھنے لگا اور بولا۔ نائن، سیون، فائیو ، ایٹ اور فور … سارجنٹ نے یہ نمبر بلند آواز میں دہرایا تھا۔ جی ہاں … ! فارم پر بھی میں نے یہی نمبر لکھا ہے۔ کیا بات ہے سر ! کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے ؟ سری ناتھ نے اپنے چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوئے پوچھا۔ سارجنٹ نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ پھر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
اس نے کہا۔ آپ یہیں تشریف رکھیں… میں ابھی آتا ہوں۔ پھر وہ فارم لے کر ایک دروازے میں جو اس کی پشت پر تھا، غائب ہو گیا۔ چند لمحوں کے اذیتناک اور صبر آزما انتظار کے بعد اس کی واپسی ہوئی تو وہ اکیلا نہیں تھا۔ ایک انسپکٹر اور سادہ لباس میں دو پولیس والے بھی اس کے ساتھ تھے۔ یہی ہے وہ شخص ؟ سارجنٹ نے سری ناتھ کی طرف اشارہ کیا اور سادہ کپڑوں میں ملبوس دونوں پولیس والے اس کے دائیں بائیں اس طرح کھڑے ہو گئے جیسے وہ کوئی مجرم ہو اور وہ اسے فرار ہونے کا موقع نہ دینا چاہتے ہوں۔ سری ناتھ، انسپکٹر کی تصویر اخبار میں دیکھتا رہا تھا اس لئے پہلی نظر میں وہ پہچان گیا کہ اس کے سامنے پولیس کے شعبہ جرائم کا ایس پی کھڑا ہوا ہے۔
سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص اسے سراغرساں شعبے کا آدمی لگ رہا تھا۔ انسپکٹر اسے اوپر سے نیچے تک تیز نظروں سے گھورتا رہا پھر وہ اپنے دھیمے اور مخصوص انداز میں سری ناتھ سے مخاطب ہوا۔ آپ کی گاڑی چوری ہوئی ہے ؟ جی ہاں !… کیا نام ہے آپ کا؟ میں فارم پر لکھ چکا ہوں۔ میں آپ سے نام پوچھ رہا ہوں۔میرا نام سری ناتھ ہے۔
یہ میرا کارڈ ہے۔ سری ناتھ نے متانت سے کہا اور بڑے باوقار انداز میں جیب سے وزیٹنگ کارڈ نکال کر انسپکٹر کی طرف بڑھا دیا جس پر اس کے دفتر کا پتا درج تھا۔ کارڈ دیکھ کر انسپکٹر کے رویئے میں قدرے نرمی آئی۔ یہ کار واقعی آپ ہی کی ہے؟ جی ہاں بالکل … ! سری ناتھ نے آنکھیں پھیلا کر اس طرح جواب دیا جیسے وہ انسپکٹر کا مقصد سمجھ نہ پایا ہو۔ اس کا کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس …؟ فی الحال تو میرے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے جو میں نے سارجنٹ کو دے دیا ہے باقی کا غذات گھر پر محفوظ ہیں۔ سری ناتھ نے وضاحت کی لیکن ساتھ ہی ذرا تیز لہجے میں کہا۔
کیا کار چوری ہونے کی رپورٹ درج کرانا جرم ہے۔ نہیں … ! کار چوری ہونے کی رپورٹ درج کرانا جرم نہیں۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ یہ کار ایک جرم میں استعمال کی گئی ہے۔ انسپکٹر کا لہجہ اور نرم ہو گیا۔ کیا ..؟ سری ناتھ اس طرح اچھل پڑا
جیسے اسے برقی جھٹکا لگا ہو۔ جی ہاں …! ایک گھنٹہ پہلے یہ کار بینک کے ڈاکے میں استعمال کی گئی ہے۔ ڈا کو تقریباً بیس لاکھ کی رقم لوٹ کر لے جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ بعد میں کار شیواجی پارک کے پاس کھڑی پائی گئی ہے۔ کار کے اندر سے دو نقلی داڑھیاں، مونچھیں اور ہیٹ بھی برآمد ہوا ہے
جو واردات میں استعمال کئے گئے تھے۔انسپکٹر، سری ناتھ کو واردات کی خبر سنارہا تھا اور سری ناتھ کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جارہی تھیں۔ ضروری نہیں کہ وہ کار میری ہی ہو۔سری ناتھ نے اس انداز میں جملہ ادا کیا جیسے اسے انسپکٹر کی بات کا یقین نہ آیا ہو۔
کار تو یہی ہے۔ انسپکٹر نے تکرار کی۔ فرار کے وقت چار افراد نے اس کا نمبر نوٹ کیا تھا۔ ظاہر ہے اس میں آپ کا کوئی دوش نہیں۔ یہ ڈاکوئوں کا بہت پرانا طریقہ کار ہے۔ وہ اس قسم کی وارداتوں میں چوری کی کاریں استعمال کرتے ہیں پھر اسے کہیں چھوڑ کر دوسری کار میں فرار ہو جاتے ہیں۔ انسپکٹر نے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی۔ پھر اس نے سرسری سے لہجے میں سوال کیا۔ آپ نے کار چوری کی رپورٹ درج کرانے میں اتنی دیر کیوں کر دی ؟ دیر…! سری ناتھ نے حیرت سے دہرایا اور پھر کہا۔
جب مجھے اپنی کار کے چوری ہونے کا علم ہوا، میں بغیر کسی تاخیر کے یہاں دوڑا ہوا چلا آیا۔ دراصل میں اپنے دفتر میں تھا، کار نیچے پارکنگ میں کھڑی تھی۔ اب سے کچھ دیر پہلے میں دفتر سے اٹھ کر نیچے پارکنگ میں آیا تو وہاں میری گاڑی موجود نہیں تھی۔ ظاہر تھا کہ وہ چوری ہو چکی تھی۔ اوه …! یہ بات تھی۔ انسپکٹر نے سر ہلا دیا۔ سری ناتھ نے اس کے چہرے پر نگاہیں مرکوز کر کے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ بہر حال میں بہت شرمندہ ہوں، قصور میرا بھی ہے۔ اگر میں گاڑی کو مقفل کرنا بھول نہ جاتا تو ڈا کو اپنے مقصد میں ہر گز کامیاب نہ ہوتے۔
یہ الفاظ ادا کرتے وقت اس کے چہرے پر ندامت کی سرخی تھی۔ خیر … اگر آپ کی کار لاک ہوتی تو وہ کوئی اور گاڑی چرا لیتے کیونکہ گاڑیوں کی کمی ہے کیا اور ان کیلئے کسی بھی گاڑی کا تالا توڑ دینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ انسپکٹر نے مسکرا کر کہا۔ بہرحال کار پارک ہلز کے تھانے میں کھڑی ہے۔ کار حاصل کرنے کیلئے آپ کو وہیں جانا ہو گا۔ اس تکلیف کیلئے ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔ گویا انسپکٹر کو سری ناتھ کی شرافت اور معصومیت پر پورا یقین آگیا تھا۔ میں آپ لوگوں کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ کی وجہ سے میری کاراتنی آسانی سے مل گئی۔
ڈکیتی کی واردات کا بہر حال مجھے افسوس ہے۔سری ناتھ یہ بات کہتے ہوئے دل میں مسکرادیا۔ گفتگو کے دوران یہ بھی معلوم ہو گیا کہ سی آئی ڈی کے سراغرساں کا نام پر کاش آنند ہے۔ انسپکٹر نے اسے اسی نام سے مخاطب کیا تھا۔ اس کی عمر چوالیس برس سے زیادہ تھی۔ پستہ قد ، نکلی ہوئی توند والا بھد اسا یہ شخص گہری نظروں سے گفتگو کے دوران مسلسل سری ناتھ کا جائزہ لیتار ہا تھا لیکن اس نے بھدے سراغرساں کی چھتی ہوئی نظروں کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔
سری ناتھ بڑے اطمینان سے انسپکٹر سے ہاتھ ملا کر ہیڈ کوارٹر کی عمارت سے نکل آیا۔ انسپکٹر کی طرف سے معذرت کے الفاظ سن کر اسے بڑی تسکین ہوئی تھی۔ خوشی کے باعث اس پر خفیف سی کپکپاہٹ طاری ہو گئی۔ اسے یقین نہیں آیا تھا کہ وہ شہر کے مرکز میں ایک بینک کو تنہا لوٹنے اور پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں پوری طرح کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کے منصوبے کا دوسرا اور آخری حصہ بھی کسی پریشانی کے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تھا۔
پیشہ ور مجرموں کی طرح سری ناتھ نے پولیس کو بے وقوف سمجھنے کی غلطی نہیں کی تھی لیکن ان میں واقعی کچھ لوگ بے وقوف ہوتے ہیں۔ اسے معلوم تھا اس محکمے میں چند افراد ایسے بھی موجود ہیں جو بے انتہاذ ہین ہیں خاص طور پر سراغرساں پر کاش آنند ! لیکن سری ناتھ اسے بھی جل دینے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
اس نے پارک ہلز جانے کیلئے ٹیکسی لی اور بڑے آرام و سکون سے اس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پولیس ہیڈ کوارٹر سے پارک ہلز کافی فاصلے پر واقع تھا۔ سری ناتھ نے جیب سے پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ سلگائی اور ان واقعات کے بارے میں سوچنے لگا جو چند گھنٹے پہلے رونما ہوئے تھے
سری ناتھ کا دفتر اشوک بلڈ نگ میں واقع تھا۔ یہ کمرشل پلازہ تھا جس میں زیادہ تر وکیلوں، ڈاکٹروں، بروکروں اور دیگر پیشہ ور افراد کے دفاتر تھے۔
وہ بھی بروکر تھا۔ اپنے پیشے میں ناکامی کی وجہ شاید اس کی ناتجربہ کاری تھی یا پھر اس بحران سے نمٹنے کیلئے سرمائے کی کمی تھی۔ اس نے کاروبار کا آغاز بھی خاصی رقم سے کیا تھا۔ چار لاکھ میں اس کی پتنی کی ایک لاکھ کی رقم بھی شامل تھی لیکن وہ یہ رقم گنوا بیٹھا تھا۔ لیکن اسے اپنی رقم ضائع ہونے کا اتنا افسوس اور دکھ نہیں تھا
جتنا بیوی کی رقم بر باد ہونے کا تھا۔ اس کی پتنی جو کفایت شعار تھی، اس نے یہ رقم جانے کب سے اور کس کس طرح سے پس انداز کی ہوئی تھی۔ مشکل وقت پڑنے پر استعمال کیلئے دی تھی لیکن اس نے چند سودوں میں وہ رقم دائو پر لگادی اور یوں اس رقم سے محروم ہو گیا۔ یہ سب کچھ صرف دو دن پہلے ہوا تھا۔
گزشتہ رات وہ یہی سوچتا رہا تھا کہ وہ اس مشکل سے کیسے نجات حاصل کرے۔ پہلے اس نے سوچا کہ ان حالات سے اپنی پتنی کو آگاہ کر دے لیکن وہ اپنے اندر یہ ہمت پیدانہ کر سکا۔ اس نے پتنی کو وچن دیا ہوا تھا کہ وہ اس کی رقم کو کبھی کسی عام کاروبار میں استعمال نہیں کرے گا لہٰذا وہ اس پر وشواس کرے۔ اپنی طرف سے اس نے کسی قسم کی بد دیانتی نہیں کی تھی۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو اسے دگنی رقم ہاتھ لگتی لیکن اسے زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ پتنی کے اعتماد کو مجروح کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے جیسے اپنی پتنی کی رقم چرائی ہو۔ پتنی کے قرضے کا بوجھ اس کے ذہن پر اتنا زیادہ تھا کہ اس نے خود کشی کرنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچا تھا۔ پھر اس نے سوچا کہ یہ بزدلی ہے جو اس جیسے مرد کو شوبھا نہیں دیتی۔ آخر کار اپنا تجزیہ کر کے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ بزدل ہر گز نہیں ہے
بلکہ زیادہ ہی باہمت اور حوصلہ مند ہے۔ اپنی ہمت اور حوصلے پر ضرورت سے زیادہ اعتماد ہی تو تھا جس نے اسے کاروبار میں کامیابی کی بجائے ناکامی سے دوچار کر دیا تھا۔ کاروبار کی دنیا میں مختصر سے تجربے نے اسے سکھا دیا تھا کہ لوگ دوسرے پیشوں کی طرح اس میں بھی بڑے جوئے کھیلتے ہیں۔ اس کے سامنے کئی ایسی مثالیں جود تھیں کہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہونے والے بروکر اپنی ہمت کے بل پر ایک ہی سودے کے ذریعے کامیابی کی منزلیں طے کر لیتے ہیں۔
یہ منصوبہ اس وقت سری ناتھ کے ذہن میں آیا جب وہ بینک میں اپنی آخری پونجی کا ایک چیک کیش کرانے گیا تھا۔ جب وہ کیشیئر کی کھڑکی پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ کیشیئر ایک اکائونٹ ہولڈر کو کسی چیک کے بارے میں بتارہا تھا،
اس کا لہجہ تیز و تند تھا۔ سری ناتھ نے ارد گرد دیکھا کہ بینک کا عملہ ان کی تکرار کے شور و غل سے بے نیاز اپنے کام میں مصروف تھا۔ اچانک ایک خیال اس کے ذہن میں کوند ابن کر لپکا۔ جب وہ کیشیئر کی کھڑکی کے قریب ہوا تو کیشیئر کے دائیں طرف رکھی ٹرے میں نوٹوں کی گڈیاں دیکھ کر اس کا ارادہ یقین میں بدل گیا۔ بینک کے ملازمین اتنے ہی مصروف ہیں کہ کسی گاہک سے کیشیئر کا جھگڑا ان کی توجہ مبذول نہیں کر اسکا تو کسی اور معاملے کی طرف دھیان دینے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔
سری ناتھ نے یہ بھی سوچا کہ یہاں اس کیلئے اور بینکوں کے مقابلے میں زیادہ آسانیاں موجود ہیں۔ اس نے بڑے اطمینان سے بینک کے پورے ماحول اور کیشیئر کی ایک ایک حرکت کا جائزہ لیا۔ جب بھی کوئی چیک کیشیئر کے پاس آتا تو وہ سر جھکا کر اسے غور سے دیکھتا،
جمع کرانے کی رسید کا جائزہ لیتا اور پھر پاس بک پر ایک نظر ڈالتا پھر اس کے بعد اس شخص کی طرف متوجہ ہوتا۔ سری ناتھ نے سوچا کہ جب کیشیئر کو اس کی طرف اور اسے کھڑ کی پر کھڑے آدمی کے ہاتھ میں پستول نظر آئے گا جس کا رخ اس کی طرف ہو تو معاملہ زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔
اس کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ ڈاکے کے بعد دوسرا مرحلہ فرار کا تھا۔ خاص طور پر بڑے بینک میں جہاں کافی تعداد میں لوگ جمع ہوں، وہاں آسانی سے لوگوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے گزرا جا سکتا تھا۔ بینک کا سیکورٹی اسٹاف بینک میں موجود اتنے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں گولی چلانے کی حماقت نہیں کرے گا۔ اس نے سوچا اگر بینک سے باہر پولیس والے سے مڈ بھیڑ ہو
گئی تو صورتحال خطر ناک ہو سکتی ہے۔ اس نے اخبارات میں ڈکیتی کی وارداتوں کے بارے میں پڑھا تھا کہ ڈاکو ڈاکا ڈالنے کیلئے ایک کار چوری کرتے ہیں پھر واردات کے بعد کہیں چھوڑ کر دوسری گاڑی میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
ڈاکے کے علاوہ سری ناتھ کار چرانے کا خطرہ ل لینے کی ہمت نہیں کر سکا۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں مسروقہ گاڑی عین وقت پر جواب دے جائے اور وہ محض اس وجہ سے دھر لیا جائے۔ اس کے پاس جو کار تھی، اسے اس پر بھر پور وشواس تھا۔ کوئی احمق ہی کسی واردات میں اپنی کار استعمال کر سکتا تھا۔ سری ناتھ سوچتا رہا۔
اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کار کی نمبر پلیٹ بدلی جاسکتی تھی۔ اس قسم کی باتیں سوچتے سوچتے اچانک ایک نیا اور اچھوتا خیال اس کے ذہن میں جنم لینے لگا۔ پولیس کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ڈاکو واردات کیلئے اپنی کار استعمال نہیں کرتے۔ یہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے والی بات ہو گی۔ اس قسم کی مسروقہ کاریں بعد میں کہیں چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ سری ناتھ نے سوچا کہ وہ پولیس کے اس یقین سے فائدہ اٹھائے گا۔ کار کی رپورٹ لکھوانے کے بعد اسی کار کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرے گا۔ اس طرح پولیس کبھی اس پر شک نہیں کرے گی۔ وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ وہ ڈاکے کے وقت جائے واردات پر موجود نہیں تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد وہ مطمئن ہو گیا کہ اس کا منصوبہ کامیاب ہو گا۔ اب اس نے فوراً اس پر عملدرآمد کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ اس نے ہر معاملے میں بڑی احتیاط سے کام لیا تھا۔
دو دن بعد جب وہ اپنی گاڑی میں بینک کی طرف ڈاکے کی غرض سے روانہ ہوا تو اسے اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین تھا البتہ اس نے اپنے منصوبے میں اتنی ترمیم ضرور کر لی تھی کہ اب وہ واردات سے پہلے نہیں، واردات کے بعد کار کی چوری کی رپورٹ درج کرائے گا
نوجوانی کے زمانے میں سری ناتھ نے بہت سارے ڈراموں میں حصہ لیا تھا۔ وہ تجربہ اس کے کام آنے والا تھا۔ اس نے ایک دکان سے بھورے رنگ کی نقلی داڑھی و مونچھیں ، سیاہ رنگ کا چشمہ اور ایک ہیٹ خریدا جو کرکٹ کے کھلاڑی پہنتے تھے اور اب کرکٹ کا ہر شیدائی بھی اسے پہنے نظر آتا تھا۔
یہ حلیہ اس کے چہرے کو کافی حد تک بدل چکا تھا۔ پستول بھی اس کے پاس تھا جو اس نے ایک پل کے نیچے سے سے خریدا تھا۔ وہاں ہر چیز مل جاتی تھی جیسے ہیروئن، چرس، نشہ آورا آور انجکشن و غیره اس کے پاس تقریباً تمام تیاریاں منصوبے کے مطابق مکمل تھیں۔ وہ اپنی پتنی کو اس کی ماسی کے ہاں چند دنوں کیلئے بھیج دے گا۔ اس کی پتنی کی ماسی اس کے گھر سے تیس میل دور ایک کالونی میں رہتی تھی۔
وہ اس روز صبح کو لوکل ٹرین سے اس کالونی کی طرف روانہ ہو گئی تھی۔ پتنی کی گھر میں غیر موجود گی اس لئے بھی ضروری تھی کہ سری ناتھ ڈاکے کی رقم گھر میں چھپانا چاہتا تھا۔
وہ اپنی پتنی کو اعتماد میں لے سکتا تھا لیکن اس میں ایک قباحت تھی۔ اس کی پتنی رکمنی ایک دیانتدار اور مثالی عورت تھی۔ وہ اپنے پتی کی بات سنتے ہی اس کے پیچھے پڑ جاتی اور اسے غیر قانونی حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کرتی۔ اس بات کا بھی امکان تھا کہ وہ پولیس کو اطلاع کر دیتی۔ اسے کچھ نہ بتانا بہتر ہی تھا۔
سری ناتھ کا خیال تھا کہ پہلے وہ کار چوری ہونے کی رپورٹ درج کرائے اور پھر بعد میں بینک جائے لیکن اسے اپنا یہ خیال تبدیل کر نا پڑا۔ ڈاکے کے وقت لازمی طور پر اسے کچھ دیر کیلئے کار بینک کے سامنے کھڑی کرنی تھی۔ اس نے سوچا کہ اس دوران اگر کسی پولیس گشتی کار کا وہاں سے گزر ہوا تو اس کے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ واردات کیلئے اس نے سہ پہر کے وقت کا انتخاب کیا تھا۔
اس وقت بینک بند ہونے والا ہوتا تھا، تھکا ہوا عملہ اپنے کاموں میں زیادہ تندہی سے مصروف ہو گا، لوگوں کا رش بھی اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ اس نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ دفتر میں کسی کو اس کی غیر حاضری کا خیال نہ آسکے۔ اس نے بڑی احتیاط برتی تھی۔
دفتر سے نکلنے کیلئے اس نے عقبی طرف کی ایمر جنسی سیڑھیاں استعمال کی تھیں۔ اس کی جیب میں ایک چیک بھی تھا جسے اس نے تہہ کر کے رکھ لیا تھا۔ سری ناتھ نے ڈاکے کیلئے ایک دور دراز بینک کا انتخاب کیا تھا کیونکہ اس کے وہاں پہچانے جانے کا امکان نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بھی ہر لحاظ سے یہ بینک اس کیلئے زیادہ سود مند تھا اور ایک بہتر انتخاب تھا۔
اس شہر میں اس کا شمار بڑے بینکوں میں کیا جاتا تھا۔ وہاں رش بھی زیادہ رہتا تھا اور لین دین لاکھوں میں ہوتا تھا اور وہاں سے فرار ہونا بھی آسان تھا۔ نوجوانی کے زمانے میں سری ناتھ نے بہت سارے ڈراموں میں حصہ لیا تھا۔ وہ تجربہ اس کے کام آنے والا تھا۔
اس نے ایک دکان سے بھورے رنگ کی نقلی داڑھی و مونچھیں ، سیاہ رنگ کا چشمہ اور ایک ہیٹ خریدا جو کرکٹ کے کھلاڑی پہنتے تھے اور اب کرکٹ کا ہر شیدائی بھی اسے پہنے نظر آتا تھا۔
یہ حلیہ اس کے چہرے کو کافی حد تک بدل چکا تھا۔ پستول بھی اس کے پاس تھا جو اس نے ایک پل کے نیچے سے سے خریدا تھا۔ وہاں ہر چیز مل جاتی تھی جیسے ہیروئن، چرس، نشہ آورا آور انجکشن و غیره اس کے پاس تقریباً تمام تیاریاں منصوبے کے مطابق مکمل تھیں۔ وہ اپنی پتنی کو اس کی ماسی کے ہاں چند دنوں کیلئے بھیج دے گا۔
اس کی پتنی کی ماسی اس کے گھر سے تیس میل دور ایک کالونی میں رہتی تھی۔ وہ اس روز صبح کو لوکل ٹرین سے اس کالونی کی طرف روانہ ہو گئی تھی۔ پتنی کی گھر میں غیر موجود گی اس لئے بھی ضروری تھی کہ سری ناتھ ڈاکے کی رقم گھر میں چھپانا چاہتا تھا۔
وہ اپنی پتنی کو اعتماد میں لے سکتا تھا لیکن اس میں ایک قباحت تھی۔ اس کی پتنی رکمنی ایک دیانتدار اور مثالی عورت تھی۔ وہ اپنے پتی کی بات سنتے ہی اس کے پیچھے پڑ جاتی اور اسے غیر قانونی حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کرتی۔ اس بات کا بھی امکان تھا
کہ وہ پولیس کو اطلاع کر دیتی۔ اسے کچھ نہ بتانا بہتر ہی تھا۔ سری ناتھ کا خیال تھا کہ پہلے وہ کار چوری ہونے کی رپورٹ درج کرائے اور پھر بعد میں بینک جائے لیکن اسے اپنا یہ خیال تبدیل کر نا پڑا۔ ڈاکے کے وقت لازمی طور پر اسے کچھ دیر کیلئے کار بینک کے سامنے کھڑی کرنی تھی۔ اس نے سوچا کہ اس دوران اگر کسی پولیس گشتی کار کا وہاں سے گزر ہوا تو اس کے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔
واردات کیلئے اس نے سہ پہر کے وقت کا انتخاب کیا تھا۔ اس وقت بینک بند ہونے والا ہوتا تھا، تھکا ہوا عملہ اپنے کاموں میں زیادہ تندہی سے مصروف ہو گا، لوگوں کا رش بھی اپنے عروج پر ہوتا ہے۔
اس نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ دفتر میں کسی کو اس کی غیر حاضری کا خیال نہ آسکے۔ اس نے بڑی احتیاط برتی تھی۔ دفتر سے نکلنے کیلئے اس نے عقبی طرف کی ایمر جنسی سیڑھیاں استعمال کی تھیں۔
اس کی جیب میں ایک چیک بھی تھا جسے اس نے تہہ کر کے رکھ لیا تھا۔ سری ناتھ نے ڈاکے کیلئے ایک دور دراز بینک کا انتخاب کیا تھا کیونکہ اس کے وہاں پہچانے جانے کا امکان نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بھی ہر لحاظ سے یہ بینک اس کیلئے زیادہ سود مند تھا اور ایک بہتر انتخاب تھا۔ اس شہر میں اس کا شمار بڑے بینکوں میں کیا جاتا تھا۔
وہاں رش بھی زیادہ رہتا تھا اور لین دین لاکھوں میں ہوتا تھا اور وہاں سے فرار ہونا بھی آسان تھا۔ ایک پارک کے نزدیک سنسان جگہ پر اس نے گاڑی پارک کی اور بڑے محتاط انداز سے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ اس کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہے تو اس نے نقلی داڑھی، مونچھیں نکالیں اور کار کے اندر لگے آئینے میں دیکھتے ہوئے انہیں گوند کے ذریعے چہرے پر چپکا لیا۔
سر پر ہیٹ رکھ کر اس نے اپنے بال چھپا لئے۔ سیاہ شیشوں کی عینک پہننے کے بعد وہ ایک بالکل مختلف شخص نظر آیا تھا۔ اس کی پتنی تو کیا شاید اس کی ماں بھی اب اسے نہیں پہچان سکتی تھی۔
بینک کے قریب اس نے اپنی کار پارک کی اور چرمی بیگ اٹھا کر باہر نکلا۔ اس کا ریوالور جیب میں موجود تھا۔ بینک کی طرف بڑھتے ہوئے اس کا دل بڑے زور سے دھڑک رہا تھا۔ ایک لمحے کیلئے اس نے سوچا کہ وہ اپنا ارادہ ترک کر دے اور واپس چلا جائے لیکن واپسی کا مطلب وہ جانتا تھا کہ جو خود کشی کے سوا کچھ نہیں تھا …!
اس نے اپنے حواس مجتمع کئے اور بینک میں داخل ہو گیا۔ کیشیئر کی کھڑکی کے سامنے چند لوگ قطار میں کھڑے تھے۔ وہ سب کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ ابھی وہ ایک قدم آگے ہی بڑھا تھا کہ دو افراد جو گہرے رنگ کی نیلی وردی میں ملبوس تھے ، اس کے پیچھے لائن میں کھڑے ہو گئے۔ ان کی وردی اور ہاتھوں پر گریس اور تیل کے دھبے تھے اور تیل اور پیٹرول کی بو آرہی تھی۔
ان کی گفتگو ، وضع قطع اور چہرے مہرے سے واضع ہو رہا تھا کہ وہ قریبی موٹر ورکشاپ کے میکینک ہیں۔ ان کی ظاہری وضع قطع اور لباس دیکھ کر سری ناتھ نے انہیں بھی اپنے منصوبے میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان دونوں کو اس منصوبے کا علم ہی نہیں تھا۔ ان بے چاروں کو خبر ہی نہیں تھی کہ ان پر اچانک اور غیر متوقع کیا افتاد بجلی کی طرح گرنے والی ہے۔ اندر جو لڑکیاں اور عور تیں اسٹاف میں تھیں اور اپنے کام نمٹانے میں تیزی سے مصروف تھیں،
ان میں دو خاصی خوبصورت اور پر کشش تھیں۔ ان کی خوبصورتی نے اس کے آگے کھڑے میکینک کے علاوہ اور مردوں کو بھی متوجہ کیا ہوا تھا۔ سری ناتھ نے سوچا کہ ان کا نظارہ اس کے منصوبے میں بھی معاون ثابت ہو رہا ہے۔ سری ناتھ اب کیشیئر کی کھڑکی کے قریب پہنچ گیا تھا۔ جوں ہی اس سے اگلا فرد کھڑ کی سے اپنا کیش لے کر ہٹا تو سری ناتھ نے برقی سرعت سے آگے بڑھ کر اپنا چر میں بیگ کائونٹر پر رکھ دیا۔
دوسرے ہاتھ سے اس نے چیک کیشیئر کی طرف بڑھا دیا۔ کیشیئر نے چیک تھام لیا۔ سری ناتھ نے دفتر میں جو چیک سلپ پر کی تھی، اس پر ہاتھ سے نہیں لکھا تھا بلکہ ٹائپ کیا ہوا تھا۔ سری ناتھ نے چیک سلپ پر جو عبارت ٹائپ کی تھی، وہ یہ تھی۔ مسٹر کیشیئر ! اگر تم زندہ رہنے کی کی خواہش رکھتے ہو تو نوٹوں والی ٹرے میری طرف غیر محسوس انداز سے فوراً سر کا دو اور گونگے بنے بیٹھے رہو۔
کیشیئر چیک کی عبارت پڑھ رہا تھا۔ اس دوران سری ناتھ نے پستول نکال لیا۔ چیک پر ٹائپ کی ہوئی عبارت پڑھتے ہی کیشیئر کا چہرہ زرد پڑ گیا اور سفید ہوتا چلا گیا اور اس کے ہاتھ سے چیک چھوٹتے چھوٹتے بچا۔ اس نے سر اٹھا کر ہونقوں کی طرح دیکھا تو اس کے سامنے کھڑکی کے پاس کھڑے ہوئے شخص کے ہاتھ کی گرفت میں دبے ہوئے پستول کی نال اپنی طرف جھانکتی ہوئی نظر آئی۔
اسے ایسا لگا تھا کہ پستول کی نال اسے فرشتہ اجل کی طرح گھور رہی ہے۔ اس کے چہرے پر پسینہ پھوٹ پڑا تھا۔ کیشیئر نے بد حواسی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھا۔ بیگ کی اوٹ میں کسی کو پستول نظر نہیں آسکتا تھا۔ ہر شخص اپنے میں اپنے کام میں ایسا مصروف تھا جیسے اسے سر کھجانے کی فرصت تک نہ ہو۔
سری ناتھ نے کیشیئر کو متذبذب دیکھ کر پستول کا سیف سیفٹی کیچ کھینچ لیا تھا۔ وہ اس انداز میں مخاطب ہوا جیسے اپنے پیچھے کھڑے ہوئے ساتھیوں کو حکم دے رہا ہو۔جو بھی کوئی گڑ بڑ کرے ، اسے بلا تامل شوٹ کر دینا، خواہ وہ عورت ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے یہ الفاظ سر گوشی میں اتنی آہستگی سے ادا کئے کہ کیشیئر کے سوا کسی اور کے کانوں تک یہ آواز نہیں پہنچ سکی۔
کیشیئر کار ہا سہا حوصلہ بھی جواب دے گیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ اس شخص کے پیچھے کھڑے ہوئے دو آدمی بھی ڈاکو کے ساتھی ہیں۔ اس نے یہ بھی دیکھ لیا کہ بینک میں کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہے۔ کیشیئر نے لرزتے ہاتھوں سے نوٹوں کی گڑیوں سے بھری ٹرے آگے بڑھادی۔ سری ناتھ نے پھرتی سے نوٹوں کی گڈیاں بیگ میں ڈالیں اور تیزی سے بینک کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ پستول ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا۔ جیسے ہی وہ کھڑکی سے ہٹا، کیشیئر نے اک دم سے شور مچادیا۔ پکڑو ۔ ڈاکو ۔ ان دونوں آدمیوں کو پکڑو۔
بینک میں کافی لوگ موجود تھے اور جن لوگوں نے سری ناتھ کو کیش کھڑ کی سے ہٹتے دیکھا تو انہیں سری ناتھ کا پستول بھی نظر آگیا تھا۔ ہر کسی کو اپنی جان پیاری تھی۔ وہ اسے دہشت زدہ ہو کر دیکھنے لگے تھے۔ کیشیئر کی آواز سنتے ہی بینک میں بھگدڑ مچ گئی تھی۔
سری ناتھ نے پستول والا ہاتھ اپنی جیب میں ڈال لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اس حادثے کی نوعیت کسی کی سمجھ میں آتی، وہ بیرونی دروازے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ بینک کی عمارت سے باہر نکلتے ہی سری ناتھ پوری قوت سے کار کی طرف دوڑا۔ میدان صاف تھا اور وہاں گارڈ بھی نہیں تھے جو اس کیلئے اتفاق تھا۔ گاڑی کا دروازہ بند کرتے وقت اس نے دوسرے گیئر بھی ڈال دیا تھا۔
اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور جب تک لوگ اس کے پیچھے بینک سے باہر آتے ، وہ بڑی سڑک پر ٹریفک کے ہجوم میں گم ہو گیا۔ یہ اس کی بد قسمتی تھی کہ اگلے چوراہے پر پہنچتے پہنچتے ٹریفک کی سرخ بتی جل اٹھی۔ اسے مجبورا ر کنا پڑا۔ بائیں طرف مڑنے کیلئے تھوڑی سی جگہ تھی لیکن اتنی بھی نہیں تھی کہ کار گزر سکتی۔ اگر اس کے آگے کھڑی کار تھوڑی سی سرک جاتی تو وہ آسانی سے گزر سکتا تھا۔ جب تک سرخ بتی روشن ررہتی، اگلی کار کے ہلنے کا سوال ہی پیدا را نہیں ہوتا تھا۔ سری ناتھ کیلئے ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔
اس نے ہونٹ بھینچ کر کار کو تیسرے گیئر میں ڈالا اور پورا ایسیلیٹر دبا کر اگلی کار کا بمپر ٹیڑھا کر دیا۔ وہ ایک جھٹکے سے کئی فٹ آگے بڑھ گئی۔ سری ناتھ نے تیزی سے اسٹیئرنگ گھمایا اور بائیں طرف گھوم گیا۔ آگے تین چوراہوں کی سرخ بتیاں اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں۔ وہ تیزی سے جائے واردات سے دور ہوتا چلا گیا اور اس نے عقبی آئینے میں دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ آخر کار وہ تیز رفتاری سے گاڑی کو دوڑاتا ہوا ایک تنگ سی گلی میں گھس گیا۔
دو چار موڑ کاٹنے کے بعد اس نے اپنی کار کی رفتار آہستہ کر لی کیونکہ اب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اس کا گھر گلی کے آخری سرے پر واقع تھا۔ مکانوں کے عقبی حصے میں باورچی خانہ تھا جس کی کھڑ کی گلی کی طرف کھلتی تھی۔
وہ آتے وقت کھڑکی کی چیخنی لگا کر نہیں آیا تھا۔ اس نے جیب سے پستول نکال کر بیگ میں ٹھونسا، کار سے اترا پھر جلدی سے بیگ کھڑ کی کے راستے باورچی خانے میں پھینکا۔ کھڑکی کے پیٹ برابر کر کے وہ واپس کار میں آگیا۔
اس نے پہلے ہی اس بات کا اچھی طرح سے اطمینان کر لیا تھا کہ کوئی اس کی حرکات و سکنات کو دیکھ تو نہیں رہا ہے۔ واپس آکر اس نے کار موڑی اور اطمینان کا سانس لیتے ہوئے نیشنل پارک کی طرف روانہ ہو گیا۔ ایک سنسان سی جگہ منتخب کر کے اس نے جھاڑیوں کی اوٹ میں گاڑی کھڑی کی۔
اس نے داڑھی مونچھیں ، ہیٹ اور چشمہ اتار کر پچھلی سیٹ پر رکھ دیا۔ پھر اس نے کار میں رکھی ہوئی پانی کی بوتل نکالی، رومال گیلا کر کے اپنا چہرہ اچھی طرح صاف کیا اور سائیڈ آئینے میں اپنی شکل دیکھی۔ پھر وہ بڑے اطمینان سے ٹہلتا ہوا ٹیکسی کی تلاش میں مین روڈ پر آگیا۔ ابھی وہ چند قدم طے کر کے بڑھا تھا کہ اسے پولیس کی گاڑیوں کے سائرن سنائی دیئے۔
اتفاق سے ایک خالی ٹیکسی نظر آئی تو اسے روک کر اس میں بیٹھ گیا۔ سری ناتھ پہلے کی طرح عقبی سیڑھیوں کے ذریعے اپنے دفتر پہنچا۔ پھر عام راہداریوں سے گزرتا ہو الفٹ کے ذریعے نیچے پہنچا۔ تھوڑی سی دیر کے بعد واپس آکر اس نے دفتر میں شور مچادیا کہ اس کی کار چوری ہو گئی ہے۔
دفتر کا عملہ اس کے گرد جمع ہو گیا۔ اس کے منیجر چو ہدری کشن لال نے اسے مشورہ دیا۔ آپ ابھی اور اسی وقت اپنی کار کی گمشدگی کی اطلاع پولیس کو دے دیں۔ پولیس ہیڈ کوارٹر کیوں نہ فون کر کے رپورٹ کر دوں ؟ نہیں ! انہوں نے اس کی بات کاٹی۔ آپ خود چلے جائیں کیونکہ پولیس فون کی رپورٹ پر فوری کارروائی نہیں کرتی ہے
، وقت ضائع مت کریں۔ٹھیک ہے۔سری ناتھ پریشانی سے ہاتھ ملتے ہوئے بولا۔ میں رپورٹ کرانے جا رہا ہوں۔ اگر کوئی میرے متعلق پوچھنے آئے تو بتا دینا۔ آپ کسی بات کی چلتا نہ کریں۔ اس نے دفتر کی لڑکیوں اور مردوں کی آوازیں سنیں۔ دفتر کا عملہ اس کی پریشانی میں برابر کا شریک لگ رہا تھا۔ پھر وہ ان سے رخصت ہو کر پولیس اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گیا۔
پولیس اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہوتے وقت اسے خود اپنے آپ پر گھبراہٹ طاری کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں کے افسر کو واردات کا علم ہو چکا تھا۔ وائر لیس یا مو بائل فون کے ذریعے اس کی انسپکٹر سے ملاقات کے بارے میں بھی معلوم ہو چکا تھا۔
اس نے وہی کہانی دہرائی جو اس نے انسپکٹر کو سنائی تھی۔ اس نے کار کی منتقلی کی رسید پر دستخط کئے اور اپنی کار لے کر پولیس اسٹیشن سے نکل گیا۔ جب وہ گاڑی فاتحانہ انداز سے چلاتے ہوئے گھر کی طرف جارہا تھا
تو اس کا دل قہقہے لگانے کو چاہ رہا تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ انسپکٹر نے اسے بتایا تھا کہ ڈاکو چھبیس لاکھ کے نوٹ لے گئے تھے۔ اسے خود گننے کی مہلت نہیں ملی تھی۔ اس نے سوچا کہ پتنی کو ایک لاکھ کی رقم دے دے گا جو اس نے لی تھی اور مزید پچیس ہزار منافع کہہ کر بھی ادا کر دے گا۔
باقی رقم اپنا کاروبار مستحکم کرنے کیلئے کافی ہوں گے۔ اسے معلوم تھا کہ کامیابی کا نشہ اتر ناشروع ہو گا اور اس کے تنے ہوئے اعصاب اپنی اصلی سابقہ حالت میں آجائیں گے تو اسے خاصی تکلیف محسوس ہو گی۔
ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی بے تابی پر قابو نہ پاسکے ، پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پتنی کو شملہ یہ کہہ کرلے جائے گا کہ اسے کاروبار میں بے پناہ فائدہ ہوا ہے۔ وہ دوسرا ہنی مون منائے گا۔ اس کی شادی کو سات برس کا عرصہ ہو چکا تھا۔ وہ اسے یہ کہہ کر فریب دے گا
کہ ان سات برسوں کے بعد بھی وہ نہایت حسین اور نوجوان دوشیزہ لگ رہی ہے۔ وہ اس کے دام فریب میں آجائے گی۔ عورت چونکہ اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتی ہے لہٰذا اس کی سیدھی سادی پتنی بھی بہت خوش ہو جائے گی۔ اس کے خیال میں اس نے یہ عقلمندی اور دوراندیشی سے کام لیا تھا کہ اپنی پتنی کو کچھ دن کیلئے اس کی ماسی کے ہاں بھیج دیا تھا
اور نہ اس کی موجودگی میں وہ لاکھ کوشش کے باوجود اپنی کیفیت نہیں چھپا پاتا۔ اس کی پتنی اس کی غیر معمولی کیفیت کو فوراً تاڑ لیتی۔ پھر اسے کئی سوالوں کے جواب دینے پڑتے۔ جب تک وہ لوٹ کر آئے گی،
تب تک معاملہ سرد پڑ چکا ہوگا۔ یہ سوچتے ہوئے سری ناتھ نے کار گیراج میں کھڑی کی اور تقریباً تیزی سے لپکتا ہوا گھر کے دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ جلد سے جلد اس دولت تک پہنچنا چاہتا تھا جسے حاصل کرنے کیلئے اس نے اپنی جان، وقار اور عزت دائو پر لگادی تھی۔ وہ اس رقم کو کسی محفوظ جگہ چھپا دینا چاہتا تھا۔
اس بیگ میں اس کا پستول بھی تھا جس کے بارے میں اس کی پتنی کو علم نہ تھا۔ وہ دروازے کے قریب پہنچاہی تھا کہ اچانک ٹھٹھک کر رک گیا۔ اچانک اسے کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا۔ دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا،
اندر اسے اس کی پتنی کی باتیں کرنے کی آواز آرہی تھی۔ شاید وہ کسی وجہ سے جلد لوٹ آئی ہو گی۔ سری ناتھ نے سوچا کہ اس کی پتنی کس سے باتیں کر رہی ہے۔ دوسری آواز کسی مرد کی تھی۔ وہ پریشان ہو گیا۔ اسے خیال آیا کہ وہ واپس پلٹ جائے
اور کسی جگہ سے فون کر کے پتنی سے معلوم کرے کہ اس کے ساتھ گھر میں کون مرد ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے اس خیال پر عمل کرتا، اس کی پتنی خود دروازے پر آگئی۔ وہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے اپنے پتی کے قدموں کی چاپ سن لی تھی
جو اس کیلئے مانوس تھی۔ اوہ …. آپ آگئے ؟ اپنی اسے دیکھ کر اچھل پڑی۔ کیا بات ہے جانی … ! اس نے اپنی پتنی کی بے چینی محسوس کر لی تھی۔ وہ اپنی سراسیمگی چھپانے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔ تم جلدی واپس آگئیں ؟ ماسی گھر پر نہیں تھیں۔
پڑوسن نے بتایا کہ وہ پونا گئی ہوئی ہیں۔ بتا کر نہیں گئی تھیں کہ کب واپس آئیں گی اس لئے میں نے سوچا کہ گھر واپس چلی جائوں۔ بات ہی کچھ پریشانی والی ہے۔
پتنی نے جواب دیا۔ میری جگہ تم بھی ہوتے تو پریشان ہو جاتے۔ تم کچھ پریشان لگ رہی ہو ؟ آخر ہوا کیا ہے ؟ سری ناتھ نے پوچھا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔ اندر آئو، میں تمہیں بتاتی ہوں۔
پتنی نے سرگوشی میں کہا تو اس کا لہجہ سری ناتھ کو بڑا پر اسرار سالگا۔ پھر اس کی پتنی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے اندر کھینچا۔ وہ پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ پر جوش بھی دکھائی دی۔
شام کا وقت تھا۔ کھڑکیوں پر پڑے پردوں کے باعث نشست گاہ میں ہلکا سا اندھیرا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ روشنی کرنے کی ضرورت ہو۔ اس کی پتنی اتنی پر جوش تھی کہ وہ آداب کے تقاضے بھی فراموش کر بیٹھی۔
اسے چاہئے تھا کہ پہلے اس اجنبی سے اس کا تعارف کراتی جس کی صورت اسے صاف نظر نہیں آئی تھی۔ تمہیں بتائوں کہ کیا ہوا؟ تم شاید ہی یقین کرو گے۔
وہ کہنے لگی۔ میں مکان میں داخل ہوئی ہی تھی کہ میں نے مکان کی پچھلی طرف کسی گاڑی کے رکنے کی آواز سنی۔ پھر میں نے باورچی خانے کی کھڑ کی بند ہونے کی آواز سنی۔
میں وہاں پہنچی تو دیکھا کہ ایک آدمی تیزی سے گاڑی کی طرف بھاگا جارہا ہے۔ وہ جلدی سے کار میں روانہ ہو گیا۔ اس کی داڑھی اور لمبی مونچھیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔
اس نے سیاہ چشمہ لگایا ہوا تھا۔ اس نے بالکل تمہارا جیسا لباس پہنا ہوا تھا، رنگ بھی یہی تھا۔سری ناتھ کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بھونچال آگیا ہو ، پیروں تلے زمین کھسک رہی ہو ، در و دیوار جھول رہے ہوں۔ پتنی کے الفاظ اس کے کانوں میں گرم گرم سے اسیسے کی طرح پگھل رہے ہوں۔ وہ مزید کچھ سننا نہیں چاہتا تھا لیکن پتنی کو کو چپ کرانا آسان نہیں تھا۔
وہ باتونی تھی۔ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ میں نے باورچی خانے کی کھڑ کی کھلنے کی آواز سن لی تھی اس لئے باورچی خانے میں جاناضروری تھا کہ کہیں بلی تو کسی چیز پر کو دی نہ ہو۔ میں نے دیکھا کہ باورچی خانے کے فرش پر چرمی بیگ پڑا ہوا تھا۔ ڈیر … ! پتا ہے اس میں کیا تھا ؟ کرنسی نوٹ… بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے نوٹوں کی گڈیاں …! ان کے اوپر ایک پستول بھی تھا۔ ڈیئر … ! تم یقین کر و خوش ہونے کے بجائے میری ٹانگیں کانپنے لگیں سری ناتھ نے دیکھا کہ یہ باتیں کرتے ہوئے بھی اس کی پتنی کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ اس کے جسم پر بھی خود کپکپاہٹ طاری ہو رہی تھی۔
اس نے خود پر قابو پانے کی جد وجہد کی اور اپنے حواس یکجا کئے۔ پھر اس نے اجنبی کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔ پھر کیا ہوا …؟ میں نے پولیس کو فون کیا تو پولیس نے یہاں پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔ میں نے اسے سب کچھ بتادیا اور اپنا بیان بھی لکھوادیا۔ باقی لوگ رقم کا بیگ لے کر چلے گئے لیکن یہ صاحب .. یہ صاحب …. ! ان کا نام مجھے یاد نہیں رہا،
وہ ابھی تک یہاں بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تم سے مل کر ہی جائیں گے۔ سری ناتھ نے اس شخص کی طرف دیکھا اور چند لمحے اسے گھور تارہا۔ اچانک جیسے اس کے پیروں سے جان نکل گئی۔ وہ اٹھ کر اس کے قریب آیا تو سری ناتھ نے اسے پہچان لیا۔
یہ وہی چھوٹے قد کا موٹا اور بھدا سراغرساں پر کاش آنند تھا جس سے اس کی ملاقات پولیس ہیڈ کوارٹر میں ہوئی تھی۔ وہ اپنی جیب سے ہتھکڑی نکال کر مسکرایا۔ جب آپ کی پتنی نے پولیس ہیڈ کوارٹر فون کیا ، اس وقت میں انسپکٹر کے پاس بیٹھا تھا۔ مجھے آپ کا نام یاد ہے۔سری ناتھ نے خاموشی سے اپنے ہاتھ آگے لے بڑھا دیئے۔
اس کی پتنی حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے ہتھکڑیاں لگتے دیکھ رہی تھی۔ اس نے جو منصوبہ بڑی ذہانت سے بنایا تھا، جسے اپنی ہمت اور جرات سے پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا، اس ذہانت کو اس کی دیانتدار پتنی نے خاک میں ملادیا تھا۔